۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
سید حسن نصراللہ

حوزہ/ شہادت ہمیشہ سے مقاومت کے جذبے کو تروتازہ کرتی ہے، اور سید حسن نصراللہ کی قربانی امت مسلمہ کے لیے ایک نیا جذبہ اور حوصلہ فراہم کرے گی۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی | زمین کبھی بھی حجتِ حق سے خالی نہیں رہتی، جیسا کہ تاریخ کے عظیم واقعات گواہ ہیں۔ جب امام حسینؑ گھوڑے سے گرے تو امام زین العابدینؑ بستر سے اٹھے۔ یہ پیغام انبیاء اور اولیاء کی استقامت کا مظہر ہے، جو ہر دور میں مظلومین کی امید رہا ہے۔

مقاومت کا مفہوم درحقیقت جہاد کبیر ہے، جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 52 میں ارشاد فرماتا ہے: "آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔" جہاد کی مختلف اقسام ہیں: جہاد اکبر، جہاد اصغر، اور جہاد کبیر۔ جہاد کبیر کا مطلب زندگی کے ہر شعبے میں دشمنوں سے مبارزہ کرنا ہے، چاہے وہ علمی، سیاسی، اقتصادی، یا ثقافتی میدان ہو۔ قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے کہ ظالموں کو اپنے ہاتھوں سے شکست دو تاکہ خالقِ کائنات انہیں عذاب دے اور رسوا کرے، اور مومنین کے دلوں کو سکون دے۔ (سورۃ توبہ، آیت 14)

تاریخ گواہ ہے کہ ہادیان دین اور آئمہ معصومین نے ہمیشہ اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کیں اور ظالموں کے خلاف مزاحمت کی، جس سے مومنین کے قلوب کو ٹھنڈک ملی۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ نے بھی اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے اس مشن کو زندہ رکھا۔

عالم اسلام نے مشاہدہ کیا کہ حماس کے رہنما ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے دشمنانِ خدا کے خلاف ڈٹ کر مزاحمت کی اور بالآخر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان دونوں نے اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو نبھایا اور خدا کے راستے میں قربان ہو گئے۔

ہر دور کا شہید تیرے قافلے میں ہے

ہوتی نہیں حسینؑ تیری کربلا تمام

یہی اصل میں مومنین کی صفات ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ علیؑ کے لعل، رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے بھی طاغوتی طاقتوں کو شکست دے کر مظلومین کے دلوں کو سکون بخشا اور اسلامی مزاحمت کی طاقت میں اضافہ کیا۔

ظالم کے خلاف مقاومت ایک دینی اور قرآنی فریضہ ہے۔ خدا نے ظلم کے خلاف استقامت کو فرض قرار دیا اور اپنے بندوں سے کہا کہ وہ کبھی بھی ناانصافیوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں۔ یہی مقاومت ہے؛ یعنی استقامت، پائیداری، اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا۔

خوف سے سوتے نہ تھے ظلم کے بانی سارے

آپ کی اتنی تھی حیبت حسن نصراللہ

سید حسن نصراللہ رح نے فرمایا تھا: "ہم فتح یاب ہونے جا رہے ہیں کیونکہ صیہونی زندگی سے محبت کرتے ہیں اور ہم موت سے خوف نہیں کھاتے۔" ان کی اس بات کی جڑیں قرآن کریم کی آیت میں ہیں جو عہد و پیمان کی پاسداری کا درس دیتی ہے۔

حسن نصراللہ کی زندگی اور قیادت

سید حسن نصراللہ 1960ء میں لبنان کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، جہاں مختلف مذاہب اور اقوام کے لوگ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے والد پھل اور سبزیوں کی فروخت سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ حسن نصراللہ سید موسیٰ الصدر کے نظریات سے متاثر تھے، جنہوں نے شیعہ سیاسی پارٹی 'عمل' کی بنیاد رکھی۔ حسن نصراللہ کی دعا تھی کہ وہ سید موسیٰ الصدر کی طرح بنیں۔

نجف اشرف میں سید حسن نصراللہ کی ملاقات دو عظیم ہستیوں سے ہوئی: سید عباس الموسوی اور آیت اللہ روح اللہ خمینی۔ یہ ملاقات ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور انہوں نے حزب اللہ کی قیادت سنبھالی۔

1997ء میں حسن نصراللہ کے بیٹے سید ہادی نصراللہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ واقعہ ایک بہت بڑی قربانی اور ان کی عظیم قیادت کا ثبوت تھا، جس نے عوام کے دلوں میں ان کی محبت میں مزید اضافہ کیا۔ حسن نصراللہ نے اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت کی اور 2000ء میں اسرائیل کو جنوبی لبنان سے پسپا ہونے پر مجبور کیا۔

هیهات منا الذلة: مقاومت کا اصول

هیهات منا الذلة کا شعار اپناتے ہوئے، حسن نصراللہ نے اپنی پوری زندگی مقاومت کے جذبے کے تحت گزاری اور کبھی بھی ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ قرآن کی تعلیمات اور شہداء کی قربانیوں کی یاد دلاتا رہا۔

حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان کا اثر صرف لبنان تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ پوری امت مسلمہ کے رہنما تھے۔ ان کی شہادت مزاحمتی تحریکوں کے لیے ایک نیا جذبہ اور حوصلہ فراہم کرے گی۔

شہید حسن نصراللہ: مزاحمت کی لازوال علامت

شب جمعہ، 26 ستمبر 2024 کو اسرائیل نے ان پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ لیکن شہید حسن نصراللہ کی یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ اگر دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ شہید کر کے ہمیں ختم کیا جا سکتا ہے تو پھر کربلا میں حسینؑ بھی ختم ہو چکے ہوتے۔ شہادت ہمیشہ سے مقاومت کے جذبے کو تروتازہ کرتی ہے۔

آخر میں، تمام مومنین سے درخواست ہے کہ وہ شہید کبیر قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کی وصیت پر عمل کریں: "آپ کا ایمان محترم امام خامنہ ای کی رہبری پر قوی اور مستحکم ہونا چاہیے۔" یہ ان کے لیے بہترین خراج تحسین ہوگا۔

اے حامی قبلہ انوار، الوداع

اے دین مصطفٰیؐ کے طرفدار، الوداع

آتی ہے آج مسجد اقصٰی سے یہ صدا

اے بےکسوں کے مونس و غمخوار، الوداع

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .